Results 1 to 2 of 2

Thread: اسلامی مملکت میں جان کا تØ+فظ Û”Û” تØ+ریر : مولانا فضل الرØ+یم اشرفی

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam اسلامی مملکت میں جان کا تØ+فظ Û”Û” تØ+ریر : مولانا فضل الرØ+یم اشرفی

    اسلامی مملکت میں جان کا تØ+فظ Û”Û”Û”Û”Û”Û” تØ+ریر : مولانا فضل الرØ+یم اشرفی

    Islami Mumalkat.jpg
    اسلام ہر شہری Ú©Ùˆ بلا امتیاز Ù…Ø°ÛØ¨ÛŒØŒØ³ÛŒØ§Ø³ÛŒØŒÙ…Ø¹Ø §Ø´ÛŒ اور معاشرتی Ø+قوق دیتا ہے

    {عن ابن عمر رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من Ø+مل علینا السلاØ+ فلیس منا}(رواہ البخاری)
    ’’Ø+ضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ فرمایا

    ترجمہ: جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں‘‘(رواہ البخاری)۔اØ+ادیث نبویہ اور آیات قرآنیہ میں ہر شہری Ú©Ùˆ جان Ú©Û’ تØ+فظ کا Ø+Ù‚ عطا کیا گیا ہے۔اللہ رب العزت Ù†Û’ سورۂ مائدہ Ú©ÛŒ Û²Û³ ویں آیت میں فرمایا ØŒ

    ترجمہ: کوئی شخص کسی کو دوسرے کے قتل کے بدلے کے علاوہ یا زمین میں فساد پھیلانے والے کے علاوہ کسی کو قتل کر دے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی کی جان کو بچائے تو گویااس نے تمام لوگوں کو بچا لیا‘‘۔

    یہاں خطاب تو بنی اسرائیل Ú©Ùˆ کیا گیا ہے، لیکن جو ہدایت وہ پوری انسانیت Ú©Û’ لیے ہے ،اسلام Ù†Û’ شہریوں Ú©Û’ Ø+قوق Ú©Ùˆ مکمل تØ+فظ دیا ہے۔ شہری سے مراد کسی ملک یا ریاست میں رہنے والا ہر وہ شخص ہے جسے اس ملک میں رہائش Ú©Û’ Ø+قوق قانونی طور پر Ø+اصل ہوں۔ اگرچہ شہری کا لفظی مطلب شہر کا رہنے والا ہے لیکن اصطلاØ+ میں شہری کسی ملک میں رہنے والے ہر شخص Ú©Ùˆ کہا جاتا ہے۔ چاہے وہ شہر میں رہتا ہو یا قصبے اور دیہات میں، یا خانہ بدوش ہو، یہ تمام شہری کہلاتے ہیں ۔اس میں رنگ اور نسل Ú©ÛŒ تفریق ہے نہ مذہب اور عقیدہ کی، بلکہ ہر وہ شخص جو ایک ملک یا ریاست Ú©ÛŒ Ø+دود میں رہتا ہو اور Ø+کومت Ú©Û’ قوانین Ú©Ùˆ تسلیم کرتا ہو وہ اس ملک کا شہری ہے اگر وہ Ø+کومت Ú©ÛŒ اجازت سے عارضی طور پر کسی دوسرے ملک میں چلا جائے تب بھی وہ اپنے ملک کا شہری ہے۔ یہ وضاØ+ت اس لیے کرنا Ù¾Ú‘ÛŒ کہ جب یہ کہا جائے کہ اسلام Ù†Û’ شہریوں Ú©Û’ Ø+قوق کا تØ+فظ کیا ہے۔ تو کہیں ذہن میں نہ آجائے کہ پھر دیہاتی لوگوں Ú©Û’ Ø+قوق کا تذکرہ کیوں نہ ہوا۔ لہٰذا لفظ شہری کا مفہوم خوب واضØ+ کر دیا گیا۔

    اسلام Ù†Û’ شہریوں Ú©Û’ ہر Ø+Ù‚ کا تØ+فظ کیا ہے۔ ان Ø+قوق Ú©Ùˆ چار Ø+صوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: مذہبی Ø+قوق ØŒ سیاسی Ø+قوق، معاشی Ø+قوق اور معاشرتی Ø+قوق۔ جس Ø+Ù‚ Ú©Û’ بارے میں ہم یہاں بات کر رہے ہیں یعنی کسی شہری Ú©ÛŒ جان Ú©Û’ تØ+فظ کا Ø+Ù‚ تو اس Ø+Ù‚ کا تعلق معاشرتی Ø+قوق ہے بلکہ معاشرتی Ø+قوق میں سب سے اہم Ø+Ù‚ ہے۔ ایک اسلامی ریاست، ایک اسلامی ملک اپنے ہر شہری Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کا ذمہ دار ہے اور جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت ہر شہری کا Ø+Ù‚ ہے۔ اسلام Ù†Û’ جان Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ لیے باقاعدہ قوانین بنانے Ú©Û’ لیے سخت سزائیں مقرر فرمائیں۔

    یہ بات واضØ+ ہے کہ Ù…Ø+ض قوانین نافذ کرنے اور سزائیں مقرر کرنے سے انسان Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت نہیں ہوتی بلکہ ان قوانین Ú©Ùˆ نافذ کرنے اور ان سزائوں پر عمل کرنے سے جان کا تØ+فظ ملے گا۔ دوسری طرف اسلام Ù†Û’ شہریوں پر بھی Ú©Ú†Ú¾ فرائض عائد کیے ہیں کہ وہ خود بھی اپنی جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کریں اور دوسرے Ú©ÛŒ جان اور اس Ú©ÛŒ زندگی کا بھی تØ+فظ کریں اگر کوئی شہری خود اپنی زندگی Ú©ÛŒ Ø+فاظت نہیں کرتا تو وہ بھی اسلامی تعلیمات Ú©Û’ مطابق سخت گنہگار ہے۔ صØ+ÛŒØ+ بخاری اور صØ+ÛŒØ+ مسلم میں Ø+ضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد نبوی ï·º ہے ØŒ جس شخص Ù†Û’ اپنے آپ Ú©Ùˆ پہاڑ سے گرا کر مار ڈالا اس Ú©Ùˆ دوزخ میں بھی گرایا جاتا رہے گا اور جس شخص Ù†Û’ زہر کھا کر اپنی جان ختم کر Ù„ÛŒ تو پھر دوزخ Ú©Û’ اندر زہر کا پیالہ اس شخص Ú©Û’ ہاتھ میں ہو گا اور وہ اسے پیتا رہے گا اور فرمایا کہ جو شخص کسی ہتھیار سے اپنے آپ Ú©Ùˆ مار ڈالے اس کا ہتھیار دوزخ Ú©Û’ اندر اس Ú©Û’ ہاتھ میں ہو گا اور وہ اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔ بخاری اور مسلم Ú©ÛŒ ایک اور روایت میں ہے کہ خود Ú©Ø´ÛŒ کرنے والے پر اللہ تعالیٰ جنت Ø+رام کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہر شہری پر خود اپنی جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت بھی ضروری ہے۔ اب مثال Ú©Û’ طور پر دیکھئے سڑکوں پر ٹریفک Ú©Û’ اشارے موجود ہیں یہ تمام ٹریفک Ú©Û’ قوانین شہریوں Ú©ÛŒ Ø+فاظت Ú©Û’ لیے بنائے گئے ہیں۔ تیز رفتاری پر پابندی بھی جان Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ لیے ہے۔ اب ایک شہری ٹریفک اشارے Ú©ÛŒ خلاف ورزی کرے تو یہ خود Ú©Ø´ÛŒ Ú©Û’ مترادف ہے ۔یہ شخص خود اپنی زندگی Ú©ÛŒ Ø+فاظت نہیں کر رہا اور اللہ تعالیٰ Ú©Û’ نزدیک بھی یہ مجرم ہے۔ اس طرØ+ تمام ملکی قوانین اور اØ+کامات جو شہریوں Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت Ú©Û’ لیے بنائے گئے ہیں ان پر خود شہریوں Ú©Ùˆ عمل کرنا لازمی ہے۔اسی طرØ+ اسلام Ù†Û’ ہر شہری کیلئے دوسرے شہری Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ بھی Ø+فاظت ضروری قرار دی ہے، کسی دوسرے Ú©ÛŒ جان Ú©Ùˆ معمولی نقصان پہنچانے سے بھی منع فرمایاہے۔ Ø+ضرت عبداللہ بن مغفلؓ Ú©ÛŒ روایت میں ارشاد نبویؐ ہے کہ آپ ï·º Ù†Û’ کنکریاں اور چھوٹے چھوٹے پتھر مارنے سے بھی منع فرمایا۔

    {قد تکسر السن وتفقاء العین}

    ترجمہ: ’’کبھی اس سے دانت ٹوٹ جاتا ہے کبھی آنکھ پھوٹ جاتی ہے۔‘‘

    Ø+ضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ روایت ہے کہ رسول اللہ ï·ºÙ†Û’ فرمایا جو شخص تم میں سے ہماری مسجدوں میں آئے یا بازار سے گزرے اور اس Ú©Û’ پاس تیر ہوں تو وہ تیروں Ú©Û’ Ù¾Ú¾Ù„ پر ہاتھ رکھ Ù„Û’ تاکہ کسی مسلمان Ú©Ùˆ تکلیف نہ پہنچے۔ رسول اللہ ï·ºÙ†Û’ کسی شہری Ú©ÛŒ طرف اسلØ+ہ کرنے Ú©Ùˆ بھی منع فرمایا،

    {لا یشیر اØ+دکم علی اخیہ بالسلاØ+ فانہ لا یدری لعل الشیطن ینزع فی یدہ فیقع فی Ø+ضرۃ من النار}

    ’’یعنی تم میں سے کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے ہتھیار کو کھینچ لے اور وہ بھائی کو لگ جائے اور پھر یہ مارنے والا جہنم کے گڑھے میں جا پڑے‘‘۔

    بخاری شریف میں ارشاد نبوی ﷺہے:

    {من اشار الی اخیہ بØ+دید فان الملئکۃ تلعنہ Ø+تی یضعہاوان کان اخاہ لا بیہ وامہ }

    ’’جو شخص کسی مسلمان Ú©ÛŒ طرف تیز دھار والی چیز سے اشارہ کرے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس چیز Ú©Ùˆ رکھ دے اگرچہ اشارہ کرنے والے کا Ø+قیقی بھائی کیوں نہ ہو۔‘‘

    رسول اللہ ﷺ نے دوسرے مسلمان پر ہتھیار اٹھانے والے کو مسلمانوں کے دائرہ سے خارج فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    {من Ø+مل علینا السلاØ+ فلیس منا}

    ترجمہ : ’’جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

    اسلام Ù†Û’ ہر مسلمان Ú©ÛŒ جان دوسرے مسلمان Ú©Û’ لیے قابل اØ+ترام قرار دی دوسرے Ú©ÛŒ زندگی Ú©Ùˆ نقصان پہنچانا Ø+رام قرار دیا ہے۔ فرمایا،

    {Ú©Ù„ المسلم علی المسلم Ø+رام دمہ ومالہ وعرضہ}

    ’’ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر Ø+رام ہے اس کا خون اس کا مال اور اس Ú©ÛŒ عزت۔‘‘

    اللہ رب العزت Ù†Û’ جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت Ú©Û’ لیے قانون ارشاد فرمایا:ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجز اؤہ جہنم خالدا فیہاوغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ عذابا عظیما۔ یعنی جو شخص جان بوجھ کر کسی ایمان والے Ú©Ùˆ قتل کرے تو اس پر لعنت ہو Ú¯ÛŒ اور اس Ú©Û’ لیے بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے اور دنیا میں قاتل Ú©Û’ لیے قصاص کا قانون عطا فرمایا کہ جان Ú©Û’ بدلے جان Ù„ÛŒ جائے۔ اگر قاتل Ú©Û’ ورثاء مالی معاوضہ لینا چاہیں تو دیت کا قانون رکھا اور یہ بھی اجازت دی کہ اگر ورثاء قاتل Ú©Ùˆ دنیوی سزا معاف کر دیں تو یہ بھی ان کا Ø+Ù‚ ہے وہ معاف کر سکتے ہیں لیکن جان Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ سلسلے میں اسلام Ù†Û’ جتنے بھی قوانین عطا کیے ہیں ان قوانین Ú©Ùˆ ہر آدمی نافذ نہیں کر سکتا اور کوئی شخص جوش انتقام اور غصہ میں کسی بھی شخص Ú©Ùˆ سزا دینے Ú©Û’ لیے قانون Ú©Ùˆ اپنے ہاتھ میں نہیں Ù„Û’ سکتا۔ بلکہ ان سزائوں کا نفاذ صرف اور صرف Ø+کومت اور عدلیہ کر سکتی ہے یا ان Ú©ÛŒ طرف سے مقرر کردہ ادارے سزا دے سکتے ہیں۔ البتہ اپنی جان Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ لیے اسلام Ù†Û’ ہر شخص Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ دیا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں Ú©ÛŒ جان بچانے Ú©Û’ لیے مقابلہ کرے اگر وہ مارا جائے تو اسے شہید قرار دیا گیا۔ ترمذی اور ابوداؤد میں سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ فرمایا :

    {ومن قتل دون دمہ فہو شہید ومن قتل دون اہلہ فہو شہید}

    ترجمہ : ’’ جو شخص اپنی جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے اور جو اپنے گھر والوں Ú©ÛŒ Ø+فاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ بھی شہید ہے۔‘‘

    لہٰذا اسلام Ù†Û’ جہاں Ø+کومت Ú©Û’ ذمہ شہریوں Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کرنا لازم کیا وہاں خود شہریوں پر بھی ایک دوسرے Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کا فرض عائد کیا۔ جان Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Ùˆ یقینی بنانے Ú©Û’ لیے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسلام Ù†Û’ زندگی Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ لیے جو قوانین مقرر فرمائے اور خود Ø+کومت جان Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ لیے جو اصول Ùˆ ضوابط مقرر کرتی ہے ان پر بلا امتیاز عمل کیا جائے ۔خصوصاً اسلامی Ø+دود اور سزائوں میں سفارش کا خاتمہ کر دیا جائے اور سختی سے مقررہ سزائوں پر عمل درآمد ہو تو پھر ولکم فی القصاص Ø+یاۃ یا اولی الالباب قرآنی فلسفہ بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ اے اہل عقل قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے۔



  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: اسلامی مملکت میں جان کا تØ+فظ Û”Û” تØ+ریر : مولانا فضل الرØ+یم اشر


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •